صفحہ 24
فہرست سخن ور میں میرا نام تو آیا
آخر یہ لہو دل کا کسی کام تو آیا
چل اے دل مضطر تجھے آرام تو آیا
وہ خود نہ سہی نہ سہی پیغام تو آیا
دیکھے گا وہ پرواز چھن جانے کا ماتم
صیاد بھی خوش ہے میں تہہ دام تو آیا
بے داغ تیرے شہر سے جانے کا الم تھا
صد شکر میرے سر کوئی الزام تو آیا
یہ کہہ کے در و بام ہوئے محو چراغاں
قیصر بھی کبھی گھر میں سر شام تو آیا
No comments:
Post a Comment