Page No 27


صفحہ نمبر27

بچھڑنا تجھ سے میرے خواب ، نہ خیال میں تھا
یہ سانحہ بھی میری جان اب کے سال میں تھا

کہاں کٹے گی بھلا رات کچھ پرندوں کی
یہ رنج شجر بریدہ کی ڈال ڈال میں تھا

ہماری ناؤ کیا ساحل کا عزم لے کے چلی
سکوں سے سویا سمندر بھی اشتعال میں تھا

فنا    کا   راستہ   پھر    اختیار    کرنا      پڑا
تیرا عروج بھی آخر میرے زوال میں تھا

ہجوم    طرب    بھی   قیصر   مجھے   لبھا   نہ     سکا
میں اس طرح سے تیرے ہجر کے ملال میں تھا

1 comment: