دوسری غزل




درد کا تیرے  نکھارا  میں  ہوا
اس لیے لوگوں کو پیارا میں ہوا

چودھویں کے چاند کی تشبیہ تو
اور  غم  کا  استعارہ  میں  ہوا

کر رہا تھا درد کو یک جا کوئی
غور سے دیکھا تو سارا میں ہوا

اب کہاں بھٹکے کا غم یہ غم نہ کر
آسمان  سے  ہوں  اتارا  میں  ہوا

سینکڑوں غم تب سے میرے ہو گئے
جب سے میری جان تمہارا  میں  ہوا

چل دیا وہ چھوڑ کر ایسے مجھے
جیسے دریا وہ،  کنارہ  میں  ہوا

محو حیرت ہوں جو دشمن جان کے تھے
آنکھ  کا  ان  کی  بھی  تارا  میں  ہوا


No comments:

Post a Comment